Saturday, August 5, 2017

برصغیر میں ابتدائی اسلامی فتوحات. کابل کی فتح.

سن 44 ھجری میں امیر معاویہ بن ابوسفیان نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمان بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا. کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ھندوستان پہنچ کر جہاد کیا. اور دس یا بارہ ہزار کنیز و غلام اسیر کئے، ان میں سے کچھ توحید و نبوت کا اقرار کر کے مسلمان ہوئے.
سن 53 ہجری میں زیاد کی انگلی میں طاعون کی پھنسی نکلی اور اس سے اس نے وفات پائی. امیر معاویہ نے اس کے بیٹے عبداللہ کو حاکم کوفہ مقرر کیا. کچھ عرصہ بعد عبداللہ نے ماوراء النہر کا عزم کیا اور اس ملک کے بہت سے شہروں کو فتح کرکے واپس آیا. اس فتح کے صلے میں اسے بصرہ کی حکومت ملی. لیکن اس نے اسلم بن زراعہ کو اپنی طرف سے خراسان کا حاکم بنایا اور خود کوفہ میں مقیم رہے. سن 50 ھجری میں خراسان کی حکومت امیر معاویہ نے سعد بن عثمان غنی رضی اللہ کے سپرد کی تھی. سن 63 ھجری میں یزید بن معاویہ نے مسلم بن زیاد کو سیستان اور خراسان کا حاکم مقرر کیا. جن لوگو کو یزید نے مسلم بن زیاد کے ہمراہ روانہ کیا ان میں مہلب بن ابی صفرہ بھی تھا. مسلم نے اپنے چھوٹے بھائی یزید کو سیستان کی حکومت سپرد کی. جب یزید بن زیاد نے یہ سنا کہ کابل کے بادشاہ نے سرکشی مسلمانوں کے حاکم ابو عبداللہ بن زیاد کو قید کرلیا ہے تو اس نے ایک لشکر جرار جمع کرکے اہل کابل سے جنگ کی. ایک زبردست اور شدید معرکہ آرائی ہوئی جس میں یزید کو شکست ہوئی اور اس کی فوج کا بڑا حصہ جنگ میں مارا گیا.
جب مسلم بن زیاد کو ان حالات سے آگاہی ہوئی تو طلحہ بن عبداللہ بن حنیف کو کہ جو " طلحہ الغلحاث" کے نام سے مشہور ہے،
کابل روانہ کیا. کابل پہنچ کر طلحہ نے 5 لاکھ درہم تاوان ادا کرکے ابو عبداللہ کو شاہ کابل کی قید سے آزاد کروایا. بعد ازاں مسلم نے سیستان کی حکومت طلحہ کو سونپی اور غور اور بادغیس کے باشندوں پر مشتمل ایک لشکر تیار کرکے کابل روانہ کیا اور اہل کابل کو زبردستی اپنا مطیع و فرمانبردار بنایا اور خالد بن عبد اللہ کو جسے بعض لوگ حضرت خالد بن ولید کی اولاد سے اور بعض ابوجھل کی اولاد سے بتاتے ہیں، حاکم کابل مقرر کیا.
جب خالد بن عبدالله کابل کی حکمرانی سے معزول ہوا تو اس نے عراق اور عرب واپس جانا مناسب نہیں سمجھا، نئے حاکم کے خوف سے کابل میں قیام بھی مشکل تھا. لہاذا اس نے اپنے بال بچوں اور متعلقین کو جو عربی النسل تھے ساتھ لیا اور شاہ کابل کی رہنمائی میں کوہ سلیمان پر اپنا ڈیرہ جمایا جو ملتان اور پشاور درمیان واقع ہے اور اپنی بیٹی کی شادی ایک شریف افغانی کے ساتھ کردی جو کہ مذہب اسلام اختیار کرچکا تھا. اس لڑکی کے بطن سے بہت سے لڑکے پیدا ہوئے جن میں سے لودھی اور سور  بہت مشہور اور ممتاز تھے. افغانیوں کے گروہ میں دو مشہور قبیلے لودھی اور سور انہی دو بھائیوں کی اولاد سے ہیں.

تاریخ فرشتہ. جلد اول.