Saturday, August 12, 2017

بنوامیہ کی فتح سندھ کا مقصد تبلیغ اسلام یا کچھ اور؟ 1

مروج نصابی، سرکاری اور ایک خاص مکتبہ فکر کی من پسند تاریخ جو برصغیر پاک و ہند میں مشہور و معروف ہے، پڑہنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کی فتح سے پہلے سندھ کے حکمران اور عوام اسلام اور انسانیت کے بدترین دشمن تھے اس لئے مسلم عرب حکمرانوں نے جذبہ اسلامی اور انسان دوستی سے مجبور ہوکر سندھ کو فتح کرکے اپنی حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا.
 یہ مروج تاریخ ایک عام قاری پر  کہ جس کا عقل و شعور  "ایمانی عقیدوں" کال کوٹھیوں میں قید ہوتا ہے، یقینن اثر انداز ہوتی ہے اور وہ بغیر چوں چراں کے اسے کفر و ایمان کی جنگ تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن ایک حقیقت پسند، غیر جانبدار محقق  جب باریک بینی سے اس کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے تو اس کے سامنے فتح سندھ کے حوالے سے مروج تاریخ کے اندر ایسے سینکڑوں شواہد سامنے آجاتے ہیں کہ انہیں کسی بھی پہلو سے فتح سندھ کے پیچھے تبلیغ اسلام کا مقصد نظر نہیں آتا. اس سلسلہ مضمون میں ہم اس مروج تاريخ کے اندر ہی موجود ان شواہد کو سامنے لانے کی کوشش کریں گے.
 اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم اس مروج تاثر سے شروعات کرتے ہیں کہ سندھی اور عرب باالخصوص مرکز اسلام مکہ محمد بن قاسم کی فتح سندھ سے پہلے ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے اس لئے جب اسلام بلاد عرب میں قدم جمانے کے بعد حدود عرب سے باہر پھیلنا شروع ہوا تو عرب حکمرانوں کو سندھ میں بھی اسلام کی تبلیغ کرنے اور وہاں کے کافر لوگوں کو مسلمان بنانے کا نیک خیال پیدا ہوا، جسے عملہ جامہ پہنانے کے لیے سندھ فتح کرکے اسلامی سلطنت میں شامل کرنا ناگزیر تھا.
 اس تاثر کی نفی کے لئے خود عربوں کی تاریخوں میں کئی حوالے موجود ہیں جسے جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر اپنے موقف کی کمزوریاں ظاہر ہونے کے خوف کے پیش نظر ان پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے. قبل از تاریخ کے دور سے ہی قدیم سندھ اور مشرق وسطٰی کی دو عظیم تہذیبوں عراق اور مصر سے قریبی تعلقات و آمدورفت کے ثبوت ماہرین کے نزدیک تصدیق شدہ ہیں. یہ انتہائی قدیم دور ہے کہ جب بلاد عرب میں انسانی آبادی کے آثار ہی ناپید یا خال خال ملتے ہیں. البتہ خلیج فارس اور بحر ھند و بحیرہ احمر کے کنارے کنارے بستیاں قائم تھیں جو آج کے سعودی عرب کے پڑوسی ممالک ہیں اور یمن، عمان بحرین ان میں نمایاں ہیں. ھند اور سندھ کے بہت سے قبائل اسلام سے صدیوں پہلے وہاں پہنچ چکے تھے اور عرب میں بھی ان کو اپنی اصل شناخت سے پکارا جاتا تھا. ان میں زط( جت)، سیابجہ/سبابجہ، احامرہ، مید، بیامرہ، سامرہ، تکاکرہ معروف ہیں( تاریخ ابن خلکان جلد 2) ان قبائل کا ذریعہ معاش زیادہ تر جانور پالنے پر ہوتا تھا جن میں اونٹ، بھیڑ بکریاں وغیرہ، فقہ حنفیہ کے امام ابو حنیفہ کا تعلق بھی قبیلہ زط( جت) سے تھا( تاريخ ابن خلکان جلد 2)
تکاکرہ ٹھاکر یا ٹھکر کی عربی میں بگڑی ہوئی شکل ہے.
 علامہ سلیمان ندوی کے بقول قبل از اسلام کے زمانے سے ہی سندھ اور عرب کے تاجروں کے آپس میں گہرے تعلقات تھے، عرب تاجر سندھ کی بندرگاہوں تک اپنا سامان لاتے اور یہاں سے سامال خرید کر مصر افریقہ اور یورپ کی بندرگاہوں تک پہنچاتے. کئی عرب تاجروں نے سندھ ھند میں مستقل رہائش بھی اختیار کرلی تھی.( سید سلمان ندوی، عرب و ہند کلا  تعلقات). عربستان میں سندھی تاجر اتنے زیادہ تھے کہ ایک عیسائی مصنف ڈاکٹر اولری کے مطابق قدیم عیسائی کتابوں میں عربوں کو سندھی لکھا گیا ہے.
علامہ جمال الدین مصری اپنی کتاب لسان العرب میں لکھتا ہے کہ "الزط جیل اسود من السند" زط( جت) سندھ کے کالے نسل کے لوگ ہیں. عرب کے تین مشہور بت لات، منات اور عزا کا تصور سندھ کے ہندوؤں کی معرفت عرب پہنچا. معروف سندھی محقق کاکو بھیرو مل آڈوانی کے بقول جب عرب میں کعبۃ اللہ بنا تو اس کا سب سے زیادہ طواف سندھیوں نے کیا. کعبے میں بت رکھ کر ان کی عبادت کرنے کی رسم سندھ سے عرب پہنچی. مکہ پرانے زمانے میں تجارت کا ایک بڑا مرکز تھا جس میں سندھی تاجروں بیٹھکیں بہت زیادہ تھیں.
 ان تمام شواہد سے ثابت ہے کہ عرب اور سندھ کے قدیم زمانے سے نہایت ہی قریبی تعلقات تھے. اس لئے یہ ناممکن بات ہے کہ عرب میں اسلام کی شروعات سے جس عظیم انقلاب کی شمع روشن ہوئی اس کی خبر ایک سؤ برس سے بھی زیادہ عرصے تک سندھ کو نہ ہوسکی.
 مروج تاریخ سے دوسرا تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ سندھ کے حکمران اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے اور ان کو اپنے لئے اور اپنے مذہب کے لئے خطرہ سمجھتے تھے.
 اس کے برعکس خود مسلمان تاریخ دانوں نے ہی اپنی کتابوں میں ایسے کئی حوالے لکھے ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سندھ حکمران ابتداء اسلام سے ہی اسلامی تعلیمات کی دل سے قدر کرتے تھے بلکہ اپنے ملک میں آنے والے مسلمانوں کو عزت و توقیر  دینے میں  کوئی کسر رہنے نہیں دیتے تھے.

   اسلام کی ابتدا کے وقت سندھ پر رائے گھرانے کی حکومت تھی جو بدھ مت کے پیروکار تھے. معروف سندھی عالم دین مولانا محمد ھاشم ٹھٹوی اپنی بیاض میں ذکر کرتے ہیں کہ جب ھجرت کے بعد جب پیغمبر علیہ السلام نے ایران، روم اور حبش کے حکمرانوں کو دعوت اسلام کے خطوط بھیجے تھے تو اس کے ساتھ ہی سندھ کے حکمران کی طرف بھی آپ ﷺ نے دعوت اسلام کا ایک سندیسہ اپنے 5 اصحاب کے وفد کے ساتھ بھیجا تھا. یہ وفد سندھ کے شہر نیرون کوٹ پہنچا اور ان کی تعلیمات و تبلیغ کے نتیجے میں کئی مقامی لوگ مسلمان ہوئے. ان میں سے دو صحابہ کچھ عرصے کے بعد نو مسلم سندھیوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ واپس مدینہ مبارک گئے جب کہ بقیہ 3 صحابہ  یہیں سندھ میں رہ کر اسلامی تعلیمات کا پرچار کرتے رہے. وہ یہیں سندھ میں دفن ہوئے.
 سن 1 ہجری میں راجا داہر کے باپ چچ نے سندھ کی حکومت حاصل کی، یوں سندھ پر رائے گھرانے کے بعد ہندو برہمن راج کا آغاز ہوا. اقتدار سنبھالنے کے فورن  بعد اپنی سلطنت کی حدود مضبوط کرنے کی خاطر راجا چچ دارالحکومت الور میں اپنے بھائی چندر کو اپنا نائب بنا کر شمال کے راجاؤں کو مطیع کرنے کے لئے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے، سب سے پہلے دریائے بیاس کے جنوبی علاقے بھاٹیا( بابیا) کے علاقے میں پہنچا وہاں کے والی ایک خون ریز جنگ میں شکست کھا کر اسکلدہ بھاگ گیا. بھاٹیہ انتظام درست کرکے راجا چچ سکا اور ملتان کی طرف بڑھے. ملتان میں اس وقت رائے گھرانے کے آخری راجا سہاسی کا قریبی عزیز بجیراء حاکم تھا، سکا میں اس کا بھتیجا سہیول گورنر تھا. جب بجیراء کو چچ کے ارادوں کی اطلاع ہوئی تو اس نے اپنے بھتیجے سہیول اور اس کے چچازاد بھائی اجے سین نے لشکر جرار ترتیب دیکر چچ سے مقابلے کی تیاری کی. چچ تین مہینے دریائے راوی کے دوسرے کنارے رک کر دریا کی طغیانی اترنے کا انتظار کرتا رہا کیوں کہ وہ گرمیوں کا موسم تھا. آخر جب دریا میں پانی کم ہوا تو وہ دریا پار کرکے سیہول پر حملہ آور ہوا اور شدید لڑائی کے بعد سکا کا قلعہ فتح کیا، سیہول وہاں سے بھاگ کر ملتان پہنچا. چچ نے سکا پر اپنے ایک قابل اعتماد شخص عین الدین ریحان مدنی کو گورنر مقرر کرکے خود لشکر کے ساتھ ملتان روانہ ہوا.( حوالہ، تاریخ سندھ. اعجاز الحق قدوسی)
 سوچنے کی بات ہے کہ اس دور میں جب یہاں مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی، اسلام نیا نیا شروع ہوا تھا، پیغمبر اسلام اپنے ہی قبیلے کی دشمنی اور مخالفت کا سامنا  کر رہے تھے، مدینے سے ہزاروں میل دور سمندر پار سندھ کا ھندو راجا اپنے ہزاروں ہم مذہب قریبی عزیزوں رشتہ داروں کو چھوڑ کر ایک اجنبی مسلمان شخص پر ہی اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتا ہے اور اسے ایک حساس اور اہم دفاعی قلعے پر اپنا حاکم مقرر کر رہا ہے. کیا ایسے انسان کو اسلام یا مسلمان دشمن قرار دیا جا سکتا ہے؟