Thursday, August 10, 2017

عربوں کی فتح کے وقت سندھ کتنی خوش حال تھی؟

سجستان کے شہر زرنج سے ملتان دو مہینے کی مسافت پر ہے، ملتان کو فرج بیت الذہب یعنی سنہری سرحد بھی کہتے ہیں کیوں کہ حجاج کے بھائی بن یوسف نے یہاں ایک گھر  کے اندر 40 بھارا سونا پایا تھا. اور ایک بھارہ 333 من کا ہوتا ہے. اسی بنا پر ملتان کو فرج بیت الذہب کہتے ہیں. فرج سرحد کو کہتے ہیں. سونے کے اس ذخیرے کا وزن 2397600 مشقال کے برابر تھا.

 ابن خرداذبہ. کتاب الماسلک والممالک سے اقتباس. 

ابن خرداذبہ. تیسری صدی ھجری کا ماہر جاگرافيدان.

ابن خرداذبہ کا نام عبیداللہ کنیت ابو القاسم ، باپ کا نام عبداللہ، دادا کا احمد اور پر دادا کا خرداذبہ تھا. اصل وطن خراسان ایران تھا، اس کے پردادا برامکہ کے ھاتھ پر اسلام لائے. ابن خرداذبہ  سن 211 ھجری میں پیدا ہوئے اور سن 300 ہجری میں وفات پائی، وہ ماہر جاگرافيدان تھے. عباسی خلیفہ معتمد کے زمانے میں اس وقت کے ایرانی صوبے " الجبال" کے محکمہ ڈاک اور خفیہ اطلاعات کے سربراہ بنائے گئے. ان کا شمار خلیفہ معتمد کے قریبی اور قابل اعتماد رفقاء اور مصاحبوں میں ہوتا ہے.
 ابن خرداذبہ نے کئی کتابیں تحریر کیں  مگر ان میں سے صرف ایک ہی کتاب "المسالک و الممالک" ہی محفوظ رہ پائی، جو عربی زبان میں جغرافیہ کی پہلی کتاب مانی جاتی ہے. اس کتاب کو مطبع بریل لیڈن نے 1889ع میں فرینچ ترجمہ کے ساتھ شایع کیا.
 اس کتاب میں بغداد سے مختلف ملکوں کی آمدورفت کے راستوں اور مسافتوں کے علاوہ دوسری تاریخی معلومات بھی درج ہے. اس کتاب میں ھندوستان کی بری و بحری راہوں اور یہاں کی مختلف ذاتوں کا بھی تذکرہ ہے. اگرچہ ابن خرداذبہ بذات خود کبھی ہندوستان نہیں آیا مگر اس کی عام معلومات کی بنیاد بطلیموس کا جغرافیہ اور خاص معلومات کا دارومدار اس کے محکمے کی سرکاری اطلاعات پر ہے.
 اس کے سرکاری عہدے کی وجہ سے اکثر تاجروں اور مسافروں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں اس لئے اس کی یہ ذاتی معلومات ایک ہندوستانی سیاح کی معلومات سے کم درجہ کی نہیں ہے.
ابن خرداذبہ وہ پہلا  عالم ہے جس نے کولمبس کی دریافت سے صدیوں پہلے اپنی کتاب میں امریکہ کی نشاندہی "وق وق" کے نام سے، چین کے مشرق میں دور  سمندر پار کی ہے اور وق وق کے امارت کے حالات بتائے ہیں. 

سندھ اور سندھیوں کے حوالے سے ابتدائی عرب مسلمان مورخین کی رائے

عثمان عمرو بن بحر الکنانی البصری، المعروف بہ الجاحظ، پیدائش ، 160 ھجری. وفات، 255 ھجری مطابق 864 عیسوی.

عربی زبان کا مشہور اور بے مثل انشاپرداز، صاحب طرز ادیب، فلسفی اور متکلم تھا. وہ صورۃ کم رو لیکن ذہانت و جودتِ طبع میں بے نظیر تھا. تحریر و تقریر میں موتی بکھیرتا تھا. مسعودی کا بیان ہے کہ پہلے اور بعد کے لوگوں میں الجاحظ سے بڑا فصیح ادیب نہیں گذرا، ابو ہفام کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ علم و فن کا شائق میں نے کسی کو نہ دیکھا نہ سنا.
 الجاحظ چھوٹی بڑی دو سؤ سے زیادہ کتابوں کا مصنف کہ جن میں سے صرف 30 کتابیں ہی محفوظ رہ سکیں، اور عباسی سلطنت میں ادیبوں اور انشاپردازوں کا امام تصور کیا جاتا تھا. اس کی مشہور کتابوں میں "البیان والتبیین"، "کتاب الحیوان"، "کتاب التاج" اور کئی رسائل شامل ہیں. ابن خلدون نے اس کتاب "البیان والتبیین" کے متعلق لکھا ہے کہ ہماری درسگاہوں کے اساتذہ اسے فن ادب کی چار اہم اور امہات کتب میں شمار کرتے تھے.
بصرہ کا باشندہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان سے بھی اس کے تعلقات تھے. چنانچہ" البیان والتبیین" میں اس نے ہندوستان کے اصول بلاغت چند سطریں اور ایک رسالہ میں ہندوستان کی بعض خوبیوں اور خصوصیتوں کا ذکر کیا ہے. یہ کتابیں مصر سے شائع ہوچکی ہیں.  سن 255 ھجری بمطابق 864 عیسوی میں اس کا انتقال ہوا.
اس کی موت کے بارے میں روایت ہے کہ مطالع کے کمرے میں کتابیں گرنے سے کتابوں کے نیچے دب جانے کی وجہ سے ہوئی.  وہ عربی کا سب سے قدیم مسلم مصنف ہے جس نے اپنی تصانیف میں ہندوستان کا تذکرہ کیا ہے.
 یہاں ان کے تصانیف سے ہند سندھ کے متعلق تذکرے پیش کئے جا رہے ہیں.

رسالہ فخر السودان علی البیضان.
 ھندوستان کے باشندوں کو ہم نے علم نجوم اور حساب میں بہت آگے پایا ہے، ان کا ایک خاص ہندی خط ہے اور طب میں بھی ان کا درجہ اونچا ہے. ان کی طب کے خاص اسرار ہیں اور سنگین بیماریوں کی خاص طور پر ان کے پاس دوائیں ہیں. مجسمے تراشنا، رنگین تصویریں بنانا جو محرابوں اور اس قسم کی دوسری چیزوں میں نظر آتی ہیں، ان کا خاص فن ہے. شطرنج ان کی ایجاد ہے جو ذہانت اور تدبیر کا بہترین کھیل ہے. ان کی تلواریں نہایت عمدہ اور  تلواروں کے کھیل سے ان کو بڑی دلچسبی ہے اور اس کو چلانے میں وہ بڑے ماہر ہیں. زہر کے اثر اور درد میں ان کی جھاڑ پھونک سے فائدہ ہوتا ہے. ان کی موسیقی دلکش ہے، ان کے ایک  ساز کا نام "کنکلہ" ہے، یہ کدو اور ایک تار کا ہوتا ہے، جو تنہا ستار کے تاروں اور جھانجھوں کا کام دیتا ہے. ان کے ہاں مختلف قسم کے ناچ رائج ہیں. ان کا ایک خط ہے جو لغات کے تمام حروف کا جامع ہے. اس کے علاوہ بھی کئی قسم کے خط ہیں. ان کی شاعری اور تقریروں کا کافی ذخیرہ ہے، ان کے یہاں طبی فلسفہ اور ادب کے فنونِ ہیں. ان ہی سے کتاب "کلیلہ دمنہ" لی گئی ہے. ھندوستانیوں میں اصابت رائے اور بہادری بھی ہے. ان میں جو خوبیاں اور خصوصیتیں ہیں وہ چینیوں میں نہیں پائی جاتیں. ان میں اصابت رائے اور خلال، مسواک کرنا، اکڑوں بیٹھنا، مانگ نکالنا، خضاب لگانا وغیرہ پسندیدہ عادتیں ہیں، خوبصورتی، تمکنی، خوشقامتی اور خوشبوئی وغیرہ سے بھی وہ آراستہ ہیں. ان خوشبوئون میں ان کی عود ہندی بطور مثال پیش کی جاتی ہے. ان ہی کے ملک سے عود ہندی بادشاہوں کے پاس آتا ہے، جس کی نظیر نہیں. ہندوستان فکر و نظر کا سرچشمہ ہے، ان کے منتروں سے زہر کا اثر ختم ہوجاتا ہے، علم نجوم کے اصل موجد وہی ہیں، لوگوں نے اس کو خاص طور سے ان سے حاصل کیا ہے. آدم علیہ السلام جب جنت سے اتارے گئے تو ان ہی کے ملک میں اترے، لوگوں کا بیان ہے کہ حبشیوں کے مفاخر میں ان کا حسن خلق اور خوش گلوئی ہے. لیکن یہ چیز تمہیں سندہ کی باندیوں اور عورتوں میں بھی ملے گی. اور وہاں کے لوگوں میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ سندھی غلاموں سے بہتر پکانے والے نہیں ملتے. انہیں فطری طور پر کھانا پکانے کا ذوق ہوتا ہے. ھندوستان والوں کے لیے باعث فخر یہ بھی ہے کہ صراف اور روپئے کے کاروبار کرنے والے اپنی تھیلیاں اور خزانے صرف سندھیوں اور ان کی اولادوں کے سپرد کرتے ہیں، اسلئے کہ وہ سندھیوں کو سب سے زیادہ صرافہ کے کاموں میں ماہر اور قابل اطمینان اور ایماندار سمجھتے ہیں، روم و خراسان والوں کو کوئی اپنے خزانے کی کنجیاں نہیں دیتا، لوگ برکت کے لیے بھی سندھیوں کو خزانچی بناتے ہیں کیوں کہ بصرہ اور بربھارات بندر والوں نے جب دیکھا کہ فرج ابو روح سندھی نے اپنے آقا کے لئے بڑی دولت و جائداد پیدا کی ہے تو ہر شخص سندھی غلام خریدنے کی خواہش کرنے لگا.