عثمان عمرو بن بحر الکنانی البصری، المعروف بہ الجاحظ، پیدائش ، 160 ھجری. وفات، 255 ھجری مطابق 864 عیسوی.
عربی زبان کا مشہور اور بے مثل انشاپرداز، صاحب طرز ادیب، فلسفی اور متکلم تھا. وہ صورۃ کم رو لیکن ذہانت و جودتِ طبع میں بے نظیر تھا. تحریر و تقریر میں موتی بکھیرتا تھا. مسعودی کا بیان ہے کہ پہلے اور بعد کے لوگوں میں الجاحظ سے بڑا فصیح ادیب نہیں گذرا، ابو ہفام کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ علم و فن کا شائق میں نے کسی کو نہ دیکھا نہ سنا.
الجاحظ چھوٹی بڑی دو سؤ سے زیادہ کتابوں کا مصنف کہ جن میں سے صرف 30 کتابیں ہی محفوظ رہ سکیں، اور عباسی سلطنت میں ادیبوں اور انشاپردازوں کا امام تصور کیا جاتا تھا. اس کی مشہور کتابوں میں "البیان والتبیین"، "کتاب الحیوان"، "کتاب التاج" اور کئی رسائل شامل ہیں. ابن خلدون نے اس کتاب "البیان والتبیین" کے متعلق لکھا ہے کہ ہماری درسگاہوں کے اساتذہ اسے فن ادب کی چار اہم اور امہات کتب میں شمار کرتے تھے.
بصرہ کا باشندہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان سے بھی اس کے تعلقات تھے. چنانچہ" البیان والتبیین" میں اس نے ہندوستان کے اصول بلاغت چند سطریں اور ایک رسالہ میں ہندوستان کی بعض خوبیوں اور خصوصیتوں کا ذکر کیا ہے. یہ کتابیں مصر سے شائع ہوچکی ہیں. سن 255 ھجری بمطابق 864 عیسوی میں اس کا انتقال ہوا.
اس کی موت کے بارے میں روایت ہے کہ مطالع کے کمرے میں کتابیں گرنے سے کتابوں کے نیچے دب جانے کی وجہ سے ہوئی. وہ عربی کا سب سے قدیم مسلم مصنف ہے جس نے اپنی تصانیف میں ہندوستان کا تذکرہ کیا ہے.
یہاں ان کے تصانیف سے ہند سندھ کے متعلق تذکرے پیش کئے جا رہے ہیں.
رسالہ فخر السودان علی البیضان.
ھندوستان کے باشندوں کو ہم نے علم نجوم اور حساب میں بہت آگے پایا ہے، ان کا ایک خاص ہندی خط ہے اور طب میں بھی ان کا درجہ اونچا ہے. ان کی طب کے خاص اسرار ہیں اور سنگین بیماریوں کی خاص طور پر ان کے پاس دوائیں ہیں. مجسمے تراشنا، رنگین تصویریں بنانا جو محرابوں اور اس قسم کی دوسری چیزوں میں نظر آتی ہیں، ان کا خاص فن ہے. شطرنج ان کی ایجاد ہے جو ذہانت اور تدبیر کا بہترین کھیل ہے. ان کی تلواریں نہایت عمدہ اور تلواروں کے کھیل سے ان کو بڑی دلچسبی ہے اور اس کو چلانے میں وہ بڑے ماہر ہیں. زہر کے اثر اور درد میں ان کی جھاڑ پھونک سے فائدہ ہوتا ہے. ان کی موسیقی دلکش ہے، ان کے ایک ساز کا نام "کنکلہ" ہے، یہ کدو اور ایک تار کا ہوتا ہے، جو تنہا ستار کے تاروں اور جھانجھوں کا کام دیتا ہے. ان کے ہاں مختلف قسم کے ناچ رائج ہیں. ان کا ایک خط ہے جو لغات کے تمام حروف کا جامع ہے. اس کے علاوہ بھی کئی قسم کے خط ہیں. ان کی شاعری اور تقریروں کا کافی ذخیرہ ہے، ان کے یہاں طبی فلسفہ اور ادب کے فنونِ ہیں. ان ہی سے کتاب "کلیلہ دمنہ" لی گئی ہے. ھندوستانیوں میں اصابت رائے اور بہادری بھی ہے. ان میں جو خوبیاں اور خصوصیتیں ہیں وہ چینیوں میں نہیں پائی جاتیں. ان میں اصابت رائے اور خلال، مسواک کرنا، اکڑوں بیٹھنا، مانگ نکالنا، خضاب لگانا وغیرہ پسندیدہ عادتیں ہیں، خوبصورتی، تمکنی، خوشقامتی اور خوشبوئی وغیرہ سے بھی وہ آراستہ ہیں. ان خوشبوئون میں ان کی عود ہندی بطور مثال پیش کی جاتی ہے. ان ہی کے ملک سے عود ہندی بادشاہوں کے پاس آتا ہے، جس کی نظیر نہیں. ہندوستان فکر و نظر کا سرچشمہ ہے، ان کے منتروں سے زہر کا اثر ختم ہوجاتا ہے، علم نجوم کے اصل موجد وہی ہیں، لوگوں نے اس کو خاص طور سے ان سے حاصل کیا ہے. آدم علیہ السلام جب جنت سے اتارے گئے تو ان ہی کے ملک میں اترے، لوگوں کا بیان ہے کہ حبشیوں کے مفاخر میں ان کا حسن خلق اور خوش گلوئی ہے. لیکن یہ چیز تمہیں سندہ کی باندیوں اور عورتوں میں بھی ملے گی. اور وہاں کے لوگوں میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ سندھی غلاموں سے بہتر پکانے والے نہیں ملتے. انہیں فطری طور پر کھانا پکانے کا ذوق ہوتا ہے. ھندوستان والوں کے لیے باعث فخر یہ بھی ہے کہ صراف اور روپئے کے کاروبار کرنے والے اپنی تھیلیاں اور خزانے صرف سندھیوں اور ان کی اولادوں کے سپرد کرتے ہیں، اسلئے کہ وہ سندھیوں کو سب سے زیادہ صرافہ کے کاموں میں ماہر اور قابل اطمینان اور ایماندار سمجھتے ہیں، روم و خراسان والوں کو کوئی اپنے خزانے کی کنجیاں نہیں دیتا، لوگ برکت کے لیے بھی سندھیوں کو خزانچی بناتے ہیں کیوں کہ بصرہ اور بربھارات بندر والوں نے جب دیکھا کہ فرج ابو روح سندھی نے اپنے آقا کے لئے بڑی دولت و جائداد پیدا کی ہے تو ہر شخص سندھی غلام خریدنے کی خواہش کرنے لگا.
عربی زبان کا مشہور اور بے مثل انشاپرداز، صاحب طرز ادیب، فلسفی اور متکلم تھا. وہ صورۃ کم رو لیکن ذہانت و جودتِ طبع میں بے نظیر تھا. تحریر و تقریر میں موتی بکھیرتا تھا. مسعودی کا بیان ہے کہ پہلے اور بعد کے لوگوں میں الجاحظ سے بڑا فصیح ادیب نہیں گذرا، ابو ہفام کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ علم و فن کا شائق میں نے کسی کو نہ دیکھا نہ سنا.
الجاحظ چھوٹی بڑی دو سؤ سے زیادہ کتابوں کا مصنف کہ جن میں سے صرف 30 کتابیں ہی محفوظ رہ سکیں، اور عباسی سلطنت میں ادیبوں اور انشاپردازوں کا امام تصور کیا جاتا تھا. اس کی مشہور کتابوں میں "البیان والتبیین"، "کتاب الحیوان"، "کتاب التاج" اور کئی رسائل شامل ہیں. ابن خلدون نے اس کتاب "البیان والتبیین" کے متعلق لکھا ہے کہ ہماری درسگاہوں کے اساتذہ اسے فن ادب کی چار اہم اور امہات کتب میں شمار کرتے تھے.
بصرہ کا باشندہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان سے بھی اس کے تعلقات تھے. چنانچہ" البیان والتبیین" میں اس نے ہندوستان کے اصول بلاغت چند سطریں اور ایک رسالہ میں ہندوستان کی بعض خوبیوں اور خصوصیتوں کا ذکر کیا ہے. یہ کتابیں مصر سے شائع ہوچکی ہیں. سن 255 ھجری بمطابق 864 عیسوی میں اس کا انتقال ہوا.
اس کی موت کے بارے میں روایت ہے کہ مطالع کے کمرے میں کتابیں گرنے سے کتابوں کے نیچے دب جانے کی وجہ سے ہوئی. وہ عربی کا سب سے قدیم مسلم مصنف ہے جس نے اپنی تصانیف میں ہندوستان کا تذکرہ کیا ہے.
یہاں ان کے تصانیف سے ہند سندھ کے متعلق تذکرے پیش کئے جا رہے ہیں.
رسالہ فخر السودان علی البیضان.
ھندوستان کے باشندوں کو ہم نے علم نجوم اور حساب میں بہت آگے پایا ہے، ان کا ایک خاص ہندی خط ہے اور طب میں بھی ان کا درجہ اونچا ہے. ان کی طب کے خاص اسرار ہیں اور سنگین بیماریوں کی خاص طور پر ان کے پاس دوائیں ہیں. مجسمے تراشنا، رنگین تصویریں بنانا جو محرابوں اور اس قسم کی دوسری چیزوں میں نظر آتی ہیں، ان کا خاص فن ہے. شطرنج ان کی ایجاد ہے جو ذہانت اور تدبیر کا بہترین کھیل ہے. ان کی تلواریں نہایت عمدہ اور تلواروں کے کھیل سے ان کو بڑی دلچسبی ہے اور اس کو چلانے میں وہ بڑے ماہر ہیں. زہر کے اثر اور درد میں ان کی جھاڑ پھونک سے فائدہ ہوتا ہے. ان کی موسیقی دلکش ہے، ان کے ایک ساز کا نام "کنکلہ" ہے، یہ کدو اور ایک تار کا ہوتا ہے، جو تنہا ستار کے تاروں اور جھانجھوں کا کام دیتا ہے. ان کے ہاں مختلف قسم کے ناچ رائج ہیں. ان کا ایک خط ہے جو لغات کے تمام حروف کا جامع ہے. اس کے علاوہ بھی کئی قسم کے خط ہیں. ان کی شاعری اور تقریروں کا کافی ذخیرہ ہے، ان کے یہاں طبی فلسفہ اور ادب کے فنونِ ہیں. ان ہی سے کتاب "کلیلہ دمنہ" لی گئی ہے. ھندوستانیوں میں اصابت رائے اور بہادری بھی ہے. ان میں جو خوبیاں اور خصوصیتیں ہیں وہ چینیوں میں نہیں پائی جاتیں. ان میں اصابت رائے اور خلال، مسواک کرنا، اکڑوں بیٹھنا، مانگ نکالنا، خضاب لگانا وغیرہ پسندیدہ عادتیں ہیں، خوبصورتی، تمکنی، خوشقامتی اور خوشبوئی وغیرہ سے بھی وہ آراستہ ہیں. ان خوشبوئون میں ان کی عود ہندی بطور مثال پیش کی جاتی ہے. ان ہی کے ملک سے عود ہندی بادشاہوں کے پاس آتا ہے، جس کی نظیر نہیں. ہندوستان فکر و نظر کا سرچشمہ ہے، ان کے منتروں سے زہر کا اثر ختم ہوجاتا ہے، علم نجوم کے اصل موجد وہی ہیں، لوگوں نے اس کو خاص طور سے ان سے حاصل کیا ہے. آدم علیہ السلام جب جنت سے اتارے گئے تو ان ہی کے ملک میں اترے، لوگوں کا بیان ہے کہ حبشیوں کے مفاخر میں ان کا حسن خلق اور خوش گلوئی ہے. لیکن یہ چیز تمہیں سندہ کی باندیوں اور عورتوں میں بھی ملے گی. اور وہاں کے لوگوں میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ سندھی غلاموں سے بہتر پکانے والے نہیں ملتے. انہیں فطری طور پر کھانا پکانے کا ذوق ہوتا ہے. ھندوستان والوں کے لیے باعث فخر یہ بھی ہے کہ صراف اور روپئے کے کاروبار کرنے والے اپنی تھیلیاں اور خزانے صرف سندھیوں اور ان کی اولادوں کے سپرد کرتے ہیں، اسلئے کہ وہ سندھیوں کو سب سے زیادہ صرافہ کے کاموں میں ماہر اور قابل اطمینان اور ایماندار سمجھتے ہیں، روم و خراسان والوں کو کوئی اپنے خزانے کی کنجیاں نہیں دیتا، لوگ برکت کے لیے بھی سندھیوں کو خزانچی بناتے ہیں کیوں کہ بصرہ اور بربھارات بندر والوں نے جب دیکھا کہ فرج ابو روح سندھی نے اپنے آقا کے لئے بڑی دولت و جائداد پیدا کی ہے تو ہر شخص سندھی غلام خریدنے کی خواہش کرنے لگا.
No comments:
Post a Comment