1. سن 15 ہجری میں حضرت عمر رضه نے عثمان بن ابی العاص ثقفی کو عمان اور بحرین کی ولایت پر مقرر کیا، عثمان ثقفی نے اپنے بھائی حکم کو بحرین بھیجا اور خود عمان جاکر ایک لشکر تھانہ( گجرات کی ایک بندرگاہ) روانہ کیا. جب وہ لشکر وہاں سے کامیاب واپس لوٹا تو انہوں نے حضرت عمر کو اس کی اطلاع دی. حضرت عمر رضه نے جواب میں تحریر کیا کہ ثقیف کے بھائی تم نے ایک کیڑے کو لکڑی پر چڑھا دیا، بخدا اگر وہ لوگ ہلاک ہوگئے ہوتے تو میں تمہاری قوم سے ایسے ہی افراد لے لیتا.
حکم نے اپنے بھائی مغیرہ کو دیبل کی طرف بھیج کر خود بھڑوچ( گجرات کی بندرگاہ) پر چڑھائی کی اور دشمن سے مقابلے پر کامیاب ہوئے. ( فتوح البلدان، باب فتوحات السند ).
2. حضرت عثمان غنی جب خلیفہ ہوئے اور عبداللہ بن عامر بن کریز کو عراق کا گورنر مقرر کیا تو ان کے پاس یہ فرمان بھیجا کہ ھندوستان کی سرحد کے پاس ایک آدمی بھیجو جو وہاں کے حالات کا جائزہ لے اور وہاں سے واپس آنے کے بعد مجھے بھی وہا کے حالات سے آگاہ کرے. فرمان کی تعمیل میں عبداللہ نے حکیم بن جبلہ کو ایک دستہ کے ساتھ حدود سند کی طرف بھیجا. جب حکم واپس آئے تو ان کو حضرت عثمان غنی کے پاس بھیج دیا. حضرت عثمان غنی نے پوچھا اس ملک کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا امیرالمومنین میں نے خوب چل پھر کر دیکھا، وہاں پانی کم، پھل خراب، اور چور بہادر ہیں. اگر فوج کم ہو تو ہلاک ہوجائے اور اگر زیادہ ہو تو بھوکی مرجائے. حضرت عثمان غنی نے یہ حال سن کر فوج کشی کا ارادہ ترک کردیا.( فتوح البلدان، باب فتوحات السند ).
نوٹ : یہ شخص غالبن سندھ کے دریائی علاقے تک نہیں پہنچا تھا، جس طرح کے حالات اس نے بتائے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ بلوچستان کے خشک اور بنجر پہاڑی علاقے گھوم کر واپس لوٹا ہے جو کہ اس دور میں سندھ کی سلطنت میں ہی شامل تھے.
3. سن 38 ہجری کے آخر یا 39 ہجری کے اوائل میں، حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت کے زمانے میں حارث بن مرہ عبدی نے رضاکارانہ طور پر سندہ کی سرحد پر حملہ کیا. اس کو فتح حاصل ہوئی اور کثیر مال غنیمت ہاتھ ایا. قیدیوں کی تعداد اتنی تھی کہ ایک دن میں ایک ہزار قیدی تقسیم کئے گئے لیکن پھر وہ اور ان کے اکثر ساتھی قلات میں قتل کر دیے گئے اور محض تھوڑے سے زندہ بچ سکے. حارث کا حادثہ قتل سن 42 ہجری میں پیش آیا. قلات خراسان کے قریب ہی سندہ کا ایک شہر ہے.( فتوح البلدان ، باب فتوحات السند).
4. سن 44 ہجری میں مہلب بن ابی صفرہ نے امیر معاویہ کے زمانے میں اس سرحد پر لشکر کشی کی، اور ہنتہ اور اہواز تک پہنچ گئے یہ دونوں شہر کابل اور ملتان کے درمیان ہیں. يہیں پر ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا. مہلب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان سے مقابلہ کیا. قلات میں انہیں 18 ترک سوار ملے جو دم بریدہ گھوڑوں پر سوار تھے. انہوں نے مہلب سے جنگ کی اور مارے گئے.
5. عبداللہ بن عامر نے امیر معاویہ ہی کے زمانے میں عبد اللہ بن سوار عبدی کو سند کے سرحدی علاقوں کا گورنر بنایا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود امیر معاویہ نے ہی عبداللہ کو گورنر مقرر کیا تھا. عبداللہ نے قلات پر حملہ کرکے مال غنیمت حاصل کیا اور اسے امیر معاویہ کے پاس لائے. اور قلاتی گھوڑے بھی ہدیہ می پیش کیے. چند دن ان کے پاس قیام کرکے واپس قلات گئے مگر قلاتیوں نے ترکوں کی فوج جمع کرکے انہیں قتل کردیا.
6. اس کے بعد زیاد بن ابوسفیان نے سنان بن سلمہ محبق ہذلی کو امیر معاویہ کے زمانے میں ہی والی بنایا. سنان صاحب فضل، عبادت گذار اور پہلے شخص تھے جس نے فوج کو بزدلی سے بچانے کے لئے طلاق کی قسم دی اور مکران بزور قوت فتح کرکے اسے شہر بنا دیا اور وہاں قیام کرکے شہروں کا نظم و نسق درست کیا.
7. ابن کلبی( ہشام الکلبی متوفی 606 ھجری) کے مطابق مکران کو حکیم بن جبلہ عبدی نے فتح کیا، ابن محبق کے بعد زیاد نے راشد بن عمرو الجدیدی ازدی کو سرحد پر مقرر کیا، وہ مکران آئے، قلات پر حملہ کیا اور فتحیاب ہوئے. پھر میدوں کی طرف بڑہے اور قتل کردیئے گئے. ان کے قتل ہونے کے بعد سنان بن سلمہ نے انتظام اپنے ہاتھ میں لیا اور زیاد نے انہیں سرحد کی ولایت پر برقرار رکھا. سنان وہاں دو سال رہے.
8. عباد بن زیاد نے ہند کی سرحد پر حملہ کیا اور سناروز( دریائے ہلمند کی ایک شاخ کا نام ہے اور اس سے غالبن دریائے اٹک مراد ہے) پہنچے. پھر کہز کی سمت سے روزبار تک اور ہند مند( سجستان کا مشہور دریا جسے یاقوت نے "ہزار ندیوں والا دریا" کہا ہے، آجکل اسے ہلمند بولتے ہیں ) تک بڑھ گئے اور کش میں قیام کیا. اور صحرا عبور کرکے قندھار پہنچے. قندھار والوں نے مقابلہ کیا مگر عباد نے ان سے جنگ کی اور بہت سے مسلمانوں کے کام آنے کے بعد قندھار فتح ہوا.
9. پھر زیاد نے منذر بن جارود المکنی بابی الاشعث کو ہند کی سرحد کا والی بنایا، انہوں نے بوقان اور قلات پر حملہ کیا. اس حملے میں مسلمانوں کو کامیابی ملی، اور مال غنیمت ہاتھ آیا. ابو الاشعث نے مختلف اطراف میں دستے پھیلا دیے اور قصدار فتح کرکے بہت سے قیدی گرفتار کئے. اس سے پہلے سنان قصدار فتح کرچکے تھے مگر وہاں کے لوگ باغی ہوگئے تھے. اس لئے دوبارہ ابو الاشعث کو فوج کشی کرنی پڑی. سنان کا انتقال قصدار میں ہی ہوا تھا.
10. عبیداللہ بن زیاد نے ابن حری باہلی کو گورنر بنایا، اللہ تعالٰی نے ان کے ہاتھ پر ان ممالک کو فتح کروایا. ابن حری کو بہت سخت جنگ کرنی پڑی اور آخر میں فتح ہوئی اور مال غنیمت ملا. بعض لوگوں کا بیان ہے کہ عبیداللہ ابن زیاد نے سنان بن سلمہ کو ان علاقوں کا والی بنایا تھا اور ابن حری فوجی دستوں پر مقرر کئے گئے تھے. بوقان کے باشندے آج کل( بلاذری کے دور میں ) مسلمان ہیں. عمران بن موسی بن یحی١ بن خالد برمکی نے معتصم باالله کے عہد خلافت میں یہاں ایک شہر آباد کیا تھا اور اس کا نام "البیضاء" رکھا تھا.
11. جب حجاج بن یوسف ابن الحکم بن ابو عقیل ثقفی عراق کا گورنر مقرر ہوا تو اس نے سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کو مکران اور اس کی سرحد پر مقرر کیا. "حارث علافی" کے بیٹوں معاویہ اور محمد نے سعید کے خلاف بغاوت کرکے اسے قتل کردیا، اور خود سرحد پر قابض ہوگئے. اس لئے حجاج نے مجاعہ بن سعر تمیمی کو اس سرحد کا گرنر بنایا. مجاعہ نے حملہ کرکے مال غنیمت حاصل کیا اور "قندابیل"( گنداوہ) کے کچھ حصے فتح کئے. مجاعہ نے ایک سال بعد مکران میں وفات پائی.
12. مجاعہ کے بعد حجاج نے محمد بن ھارون نمری کو سرحد کا والی مقرر کیا. نمری کے دور ولایت میں جزیرہ یاقوت( سریلنکا؟) کے راجا نے حجاج کے پاس کچھ عورتیں تحفتاً بھیجیں، یہ عورتیں مسلمان تھیں اور اسی راجا کے ملک میں پیدا ہوئی تھیں. راجہ نے حجاج کو خوش کرنے کے لئے ان عورتوں کو بھیجا تھا. جس کشتی میں یہ سوار تھیں اسے دیبل کے میدوں نے لوٹا اور عورتوں سمیت کل سامان پر قبضہ کرلیا. قبیلہ بنی یرموع کی ایک عورت نے دہائی دی، حجاج کو جب یہ خبر ہوئی تو اس نے راجا داھر کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ عورتوں کو چھڑا کر بھیج دے. داھر نے جواب دیا کہ انہیں بحری قزاقوں نے پکڑا ہے جو میرے بس سے باہر ہیں.
13. راجہ داھر کے اس جواب کے بعد حجاج بن یوسف نے عبید اللہ بن نبہان کو دیبل پر حملے کے لئے بھیجا مگر وہ قتل ہوگئے.
14. اس کے بعد حجاج نے بدیل بن طہفہ کو جو عمان میں تھے دیبل جانے کا حکم دیا. وہ حکم پاتے ہی پہنچ گئے مگر عین میدان جنگ میں اس کا گھوڑا بدکا اور دشمنوں نے اسے گھیر کر قتل کردیا. بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں بدھ جاٹوں( جت) نے قتل کیا تھا.
اس کے بعد محمد بن قاسم کی سربراہی میں حجاج بن یوسف نے لشکر سندہ بھیجا جس کے نتیجے میں سندھ فتح ہوا.
حکم نے اپنے بھائی مغیرہ کو دیبل کی طرف بھیج کر خود بھڑوچ( گجرات کی بندرگاہ) پر چڑھائی کی اور دشمن سے مقابلے پر کامیاب ہوئے. ( فتوح البلدان، باب فتوحات السند ).
2. حضرت عثمان غنی جب خلیفہ ہوئے اور عبداللہ بن عامر بن کریز کو عراق کا گورنر مقرر کیا تو ان کے پاس یہ فرمان بھیجا کہ ھندوستان کی سرحد کے پاس ایک آدمی بھیجو جو وہاں کے حالات کا جائزہ لے اور وہاں سے واپس آنے کے بعد مجھے بھی وہا کے حالات سے آگاہ کرے. فرمان کی تعمیل میں عبداللہ نے حکیم بن جبلہ کو ایک دستہ کے ساتھ حدود سند کی طرف بھیجا. جب حکم واپس آئے تو ان کو حضرت عثمان غنی کے پاس بھیج دیا. حضرت عثمان غنی نے پوچھا اس ملک کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا امیرالمومنین میں نے خوب چل پھر کر دیکھا، وہاں پانی کم، پھل خراب، اور چور بہادر ہیں. اگر فوج کم ہو تو ہلاک ہوجائے اور اگر زیادہ ہو تو بھوکی مرجائے. حضرت عثمان غنی نے یہ حال سن کر فوج کشی کا ارادہ ترک کردیا.( فتوح البلدان، باب فتوحات السند ).
نوٹ : یہ شخص غالبن سندھ کے دریائی علاقے تک نہیں پہنچا تھا، جس طرح کے حالات اس نے بتائے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ بلوچستان کے خشک اور بنجر پہاڑی علاقے گھوم کر واپس لوٹا ہے جو کہ اس دور میں سندھ کی سلطنت میں ہی شامل تھے.
3. سن 38 ہجری کے آخر یا 39 ہجری کے اوائل میں، حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت کے زمانے میں حارث بن مرہ عبدی نے رضاکارانہ طور پر سندہ کی سرحد پر حملہ کیا. اس کو فتح حاصل ہوئی اور کثیر مال غنیمت ہاتھ ایا. قیدیوں کی تعداد اتنی تھی کہ ایک دن میں ایک ہزار قیدی تقسیم کئے گئے لیکن پھر وہ اور ان کے اکثر ساتھی قلات میں قتل کر دیے گئے اور محض تھوڑے سے زندہ بچ سکے. حارث کا حادثہ قتل سن 42 ہجری میں پیش آیا. قلات خراسان کے قریب ہی سندہ کا ایک شہر ہے.( فتوح البلدان ، باب فتوحات السند).
4. سن 44 ہجری میں مہلب بن ابی صفرہ نے امیر معاویہ کے زمانے میں اس سرحد پر لشکر کشی کی، اور ہنتہ اور اہواز تک پہنچ گئے یہ دونوں شہر کابل اور ملتان کے درمیان ہیں. يہیں پر ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا. مہلب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان سے مقابلہ کیا. قلات میں انہیں 18 ترک سوار ملے جو دم بریدہ گھوڑوں پر سوار تھے. انہوں نے مہلب سے جنگ کی اور مارے گئے.
5. عبداللہ بن عامر نے امیر معاویہ ہی کے زمانے میں عبد اللہ بن سوار عبدی کو سند کے سرحدی علاقوں کا گورنر بنایا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود امیر معاویہ نے ہی عبداللہ کو گورنر مقرر کیا تھا. عبداللہ نے قلات پر حملہ کرکے مال غنیمت حاصل کیا اور اسے امیر معاویہ کے پاس لائے. اور قلاتی گھوڑے بھی ہدیہ می پیش کیے. چند دن ان کے پاس قیام کرکے واپس قلات گئے مگر قلاتیوں نے ترکوں کی فوج جمع کرکے انہیں قتل کردیا.
6. اس کے بعد زیاد بن ابوسفیان نے سنان بن سلمہ محبق ہذلی کو امیر معاویہ کے زمانے میں ہی والی بنایا. سنان صاحب فضل، عبادت گذار اور پہلے شخص تھے جس نے فوج کو بزدلی سے بچانے کے لئے طلاق کی قسم دی اور مکران بزور قوت فتح کرکے اسے شہر بنا دیا اور وہاں قیام کرکے شہروں کا نظم و نسق درست کیا.
7. ابن کلبی( ہشام الکلبی متوفی 606 ھجری) کے مطابق مکران کو حکیم بن جبلہ عبدی نے فتح کیا، ابن محبق کے بعد زیاد نے راشد بن عمرو الجدیدی ازدی کو سرحد پر مقرر کیا، وہ مکران آئے، قلات پر حملہ کیا اور فتحیاب ہوئے. پھر میدوں کی طرف بڑہے اور قتل کردیئے گئے. ان کے قتل ہونے کے بعد سنان بن سلمہ نے انتظام اپنے ہاتھ میں لیا اور زیاد نے انہیں سرحد کی ولایت پر برقرار رکھا. سنان وہاں دو سال رہے.
8. عباد بن زیاد نے ہند کی سرحد پر حملہ کیا اور سناروز( دریائے ہلمند کی ایک شاخ کا نام ہے اور اس سے غالبن دریائے اٹک مراد ہے) پہنچے. پھر کہز کی سمت سے روزبار تک اور ہند مند( سجستان کا مشہور دریا جسے یاقوت نے "ہزار ندیوں والا دریا" کہا ہے، آجکل اسے ہلمند بولتے ہیں ) تک بڑھ گئے اور کش میں قیام کیا. اور صحرا عبور کرکے قندھار پہنچے. قندھار والوں نے مقابلہ کیا مگر عباد نے ان سے جنگ کی اور بہت سے مسلمانوں کے کام آنے کے بعد قندھار فتح ہوا.
9. پھر زیاد نے منذر بن جارود المکنی بابی الاشعث کو ہند کی سرحد کا والی بنایا، انہوں نے بوقان اور قلات پر حملہ کیا. اس حملے میں مسلمانوں کو کامیابی ملی، اور مال غنیمت ہاتھ آیا. ابو الاشعث نے مختلف اطراف میں دستے پھیلا دیے اور قصدار فتح کرکے بہت سے قیدی گرفتار کئے. اس سے پہلے سنان قصدار فتح کرچکے تھے مگر وہاں کے لوگ باغی ہوگئے تھے. اس لئے دوبارہ ابو الاشعث کو فوج کشی کرنی پڑی. سنان کا انتقال قصدار میں ہی ہوا تھا.
10. عبیداللہ بن زیاد نے ابن حری باہلی کو گورنر بنایا، اللہ تعالٰی نے ان کے ہاتھ پر ان ممالک کو فتح کروایا. ابن حری کو بہت سخت جنگ کرنی پڑی اور آخر میں فتح ہوئی اور مال غنیمت ملا. بعض لوگوں کا بیان ہے کہ عبیداللہ ابن زیاد نے سنان بن سلمہ کو ان علاقوں کا والی بنایا تھا اور ابن حری فوجی دستوں پر مقرر کئے گئے تھے. بوقان کے باشندے آج کل( بلاذری کے دور میں ) مسلمان ہیں. عمران بن موسی بن یحی١ بن خالد برمکی نے معتصم باالله کے عہد خلافت میں یہاں ایک شہر آباد کیا تھا اور اس کا نام "البیضاء" رکھا تھا.
11. جب حجاج بن یوسف ابن الحکم بن ابو عقیل ثقفی عراق کا گورنر مقرر ہوا تو اس نے سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کو مکران اور اس کی سرحد پر مقرر کیا. "حارث علافی" کے بیٹوں معاویہ اور محمد نے سعید کے خلاف بغاوت کرکے اسے قتل کردیا، اور خود سرحد پر قابض ہوگئے. اس لئے حجاج نے مجاعہ بن سعر تمیمی کو اس سرحد کا گرنر بنایا. مجاعہ نے حملہ کرکے مال غنیمت حاصل کیا اور "قندابیل"( گنداوہ) کے کچھ حصے فتح کئے. مجاعہ نے ایک سال بعد مکران میں وفات پائی.
12. مجاعہ کے بعد حجاج نے محمد بن ھارون نمری کو سرحد کا والی مقرر کیا. نمری کے دور ولایت میں جزیرہ یاقوت( سریلنکا؟) کے راجا نے حجاج کے پاس کچھ عورتیں تحفتاً بھیجیں، یہ عورتیں مسلمان تھیں اور اسی راجا کے ملک میں پیدا ہوئی تھیں. راجہ نے حجاج کو خوش کرنے کے لئے ان عورتوں کو بھیجا تھا. جس کشتی میں یہ سوار تھیں اسے دیبل کے میدوں نے لوٹا اور عورتوں سمیت کل سامان پر قبضہ کرلیا. قبیلہ بنی یرموع کی ایک عورت نے دہائی دی، حجاج کو جب یہ خبر ہوئی تو اس نے راجا داھر کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ عورتوں کو چھڑا کر بھیج دے. داھر نے جواب دیا کہ انہیں بحری قزاقوں نے پکڑا ہے جو میرے بس سے باہر ہیں.
13. راجہ داھر کے اس جواب کے بعد حجاج بن یوسف نے عبید اللہ بن نبہان کو دیبل پر حملے کے لئے بھیجا مگر وہ قتل ہوگئے.
14. اس کے بعد حجاج نے بدیل بن طہفہ کو جو عمان میں تھے دیبل جانے کا حکم دیا. وہ حکم پاتے ہی پہنچ گئے مگر عین میدان جنگ میں اس کا گھوڑا بدکا اور دشمنوں نے اسے گھیر کر قتل کردیا. بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں بدھ جاٹوں( جت) نے قتل کیا تھا.
اس کے بعد محمد بن قاسم کی سربراہی میں حجاج بن یوسف نے لشکر سندہ بھیجا جس کے نتیجے میں سندھ فتح ہوا.
1 comment:
nicely narrated historical events........
Post a Comment